صفحہ اول / آرکائیو / اسلامی ممالک اور او آئی سی کیوں خاموش ہے، پاکستانی عوام اس مشکل وقت میں فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑی ہے، ایوان بالا میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے بحث

اسلامی ممالک اور او آئی سی کیوں خاموش ہے، پاکستانی عوام اس مشکل وقت میں فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑی ہے، ایوان بالا میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے بحث

اسلام آباد :اراکین سینیٹ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور بربریت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی ممالک اور او آئی سی نے فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم پر کیوں خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، اسرائیل فلسطین میں نسل کشی اور جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے، پاکستانی عوام اس مشکل وقت میں فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑی ہے، دنیا کو اب دوہرا معیار ترک کرنا ہو گا، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل فلسطینیوں کی نسل کشی کو رکوائے۔

منگل کو ایوان بالا کے اجلاس میں معصوم فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی مظالم کے خلاف تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر دلاور خان نے کہا کہ ریاست پاکستان مسئلہ کشمیر اور فلسطین پر انتہائی ذمہ دارانہ کردار ادا کر رہی ہے، فلسطین پر ہونے والے ظلم و زیادتی کے واقعات کوئی نئے نہیں ہیں، مسلم ممالک کو مل جل کر فلسطینیوں کی آزادی کے لئے حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔

سنیٹر قراة العین مری نے کہا کہ چار روز قبل اقوام متحدہ نے غزہ میں سیز فائر کی قرارداد پیش کی گئی قرارداد کے حق میں 129 اور مخالفت میں 12 ووٹ آئے جبکہ 45 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا، رائے شماری حصہ نہ لینے والے ممالک ظلم و جبر کے حمایتی ہیں، غزہ میں اس وقت یہ صورتحال ہے کہ معصوم بچے اپنے بازوئوں پر نام لکھ رہے ہیں تاکہ ان کے والدین کو پہچاننے میں آسانی ہو، اسرائیل اس وقت فلسطین میں مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے، ہم فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں، سیز فائر کا مطالبہ کرتے ہیں۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے، اسرائیل فلسطین میں مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے، غزہ میں بڑے پیمانے پر اسرائیلی بمباری سے تباہی ہو رہی ہے، امریکہ اور اسرائیل فلسطین اور یوکرین کے معاملہ پر شراکت دار ہیں، پاکستان کا موقف بہت واضح ہے، فلسطین میں امدادی کارروائیوں کی اشد ضرورت ہے، چیئرمین سینیٹ کو یورپی پارلیمنٹس کو سخت الفاظ میں خطوط لکھنے کی ضرورت ہے، پاکستانی عوام اس مشکل وقت میں فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔

سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ فلسطین میں گزشتہ کئی دنوں سے اسرائیل کی طرف سے خون کی ہولی کھیلی کی جا رہی ہے، فلسطین میں ہونے والے ظلم کو فی الفور بند ہونا چاہیے، فلسطین میں امدادی کارروائیوں کی ضرورت ہے۔ سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ فلسطین میں امدادی قافلوں اور طبی امداد پہنچائے جانے کی ضرورت ہے، دنیا کی ریاستوں اور عوام میں فلسطین کے حوالے سے کھلا تضاد دیکھنے کو سامنے آ رہا ہے، اسرائیل کا ظلم و بربریت کا آغاز حماس کے حملے سے نہیں ہوا بلکہ یہ پہلے سے جاری تھا، ہم فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں، فسلطین میں فوری طور پر سیز فائر کی ضرورت ہے، فلسطین میں مظالم اور شہادتوں کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، انسانی تنظیموں کو غزہ نہیں جانے دیا جا رہا، معصوم بچوں اور خواتین کو ٹارگٹ کر کے بمباری کی جا رہی ہے۔

سینیٹر ڈاکٹر زرقہ سہروردی تیمور نے کہا کہ فلسطین میں اسرائیلی ظلم و بربریت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے، یورپی یونین، امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کا رویہ انتہائی افسوسناک ہے، انسانی حقوق کے علمبرداروں کو بے گناہ فلسطینیوں کی نسل کشی رکوانی چاہیے۔ سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ اسرائیل فلسطین میں نسل کشی اور جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے، مغربی ممالک اس فاشزم پر آواز اٹھانے کی بجائے اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں، غزہ میں بے گناہ شہریوں پر فاسفورس بم برسائے جا رہے ہیں، ہم سینیٹ سے فلسطین کے عوام کو پیغام دیتے ہیں کہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سینیٹر خالدہ عطیب نے کہا کہ غزہ کے عوام کو پانی، خوراک، ایندھن، ادویات اور دیگر بنیادی سہولیات کی کمی کا سامنا ہے، انسانیت اسرائیلی بربریت پر خون کے آنسو رو رہی ہے، عالمی برادری کی بے حسی قابل مذمت ہے۔

سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ او آئی سی ممالک متحد ہو کر اسرائیل اور اس کی حمایت کرنے والے ممالک کا معاشی بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے، دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمان اگر مغربی ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیں تو انہیں احساس ہو گا کہ ان کا نقصان ہو رہا ہے، اب تک آٹھ ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں 75 فیصد خواتین، بچے اور بزرگ شہری شامل ہیں، اسرائیل نے غزہ کی ہر طرف سے ناکہ بندی کر رکھی ہے اور وہ وہاں پر تباہی مچا رہا ہے، اسرائیل مظلوم فلسطینیوں پر فاسفورس بم برسا رہا ہے لیکن اسے کوئی پرواہ نہیں ہے، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 5 لاکھ کے قریب خواتین اور بچے بے گھر ہو چکے ہیں، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی رکوائے۔ سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ میں حیران ہوں فلسطین میں اسرائیلی جارحیت پر 57 مسلمان ممالک اور او آئی سی کیوں خاموش ہے، عرب ممالک کو بھی اپنے مسلمان بھائیوں کا احساس نہیں ہو رہا، صرف قراردادیں منظور کرنے سے کچھ نہیں ہو گا، غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کی عملی امداد کرنی چاہیے اور ادویات، خوراک اور دیگر بنیادی ضروریات بھجوائی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ میں مظلوم فلسطینیوں کے لئے ایک سال کی اپنی 20 لاکھ روپے تنخواہ دینے کا اعلان کرتا ہوں، سینیٹ کے 100 ارکان ہیں، باقی ارکان کو بھی 20، 20 لاکھ روپے دینے چاہئیں، اس طرح یہ 20 کروڑ روپے بن جائیں گے۔ انہوں نے ڈپٹی چیئرمین سے کہا کہ وہ بڑی کاروباری شخصیت ہیں، انہیں فلسطینیوں کے لئے ایک کروڑ روپے دینے چاہئیں۔ حماس کی طرف سے اسرائیل پر حملہ برسوں سے جاری فلسطینیوں پر جاری ظلم کا ردعمل ہے لیکن اس کے بعد اسرائیلی کارروائی کھلم کھلی جارحیت ہے، حماس نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا دعویٰ خاک میں ملا دیا اور مسئلہ فلسطین ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی منظر نامے پر زندہ ہو گیا۔ سینیٹر سیمی ایزدی نے کہا کہ لاکھوں فلسطینی اس وقت بے گھر ہو چکے ہیں، معصوم بچوں اور خواتین کو شہید کیا جا رہا ہے، مغربی ممالک اسرائیلی مظالم کی مذمت کریں اور اسے روکیں۔

سینیٹر جام مہتاب نے کہا کہ اسرائیل کے ظلم و بربریت پر عالمی برادری کی خاموشی باعث تشویش ہے۔ سینیٹر شہادت اعوان نے کہا کہ ہمیں مصلحتوں سے بالاتر ہو کر فلسطینیوں کی مدد کے لئے عملی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کو متحد ہو کر کھڑا ہونا چاہیے۔ سینیٹر سید وقار مہدی نے کہا کہ مغربی دنیا انسانی حقوق کی چیمپئن بنتی ہے لیکن اس وقت فلسطین میں ہونے والے واقعات پر مکمل خاموش ہے، جو کچھ بھارت کشمیر میں کر رہا ہے وہی کچھ اسرائیل فلسطین میں کر رہا ہے، پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے فلسطین کی مظلوم عوام کے لئے آواز اٹھائی، اسرائیل اس وقت عالمی دہشت گرد بنا ہوا ہے۔

سینیٹر فلک ناز نے کہا کہ ہم فلسطین کے ساتھ آزادی تک کھڑے ہیں، پاکستان کے عوام ہر قسم کے تعاون کے لئے تیار ہے۔ سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ فلسطین میں روزانہ سینکڑوں بچے شہید ہو رہے ہیں۔ سینیٹر پلوشہ محمد زئی نے کہا کہ اقوام عالم بالخصوص مسلمان دنیا فلسطینیوں کی نسل کشی پر خاموش کیوں ہے۔ سینیٹر فدا محمد نے کہا کہ فلسطین میں عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔ سینیٹر پروفیسر مہر تاج روغانی، سینیٹر پروفیسر ساجد میر، سینیٹر مولانا فیض محمد، سینیٹر گردیپ سنگھ اور سینیٹر محمد اکرم نے بھی بحث میں حصہ لیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے