تحریر: نائلہ علی
(ڈیپارٹمنٹ آف کمیونیکیشن اینڈ میڈیا سٹڈیز)
وطنِ عزیز عرصہ دراز سے بم دھماکے، دہشت گردی اور اس سے جڑی ٹارگٹ کیلنگ سے دوچار ہے ملک کے مختلف علاقے اس دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں جن میں سر فہرست ڈیرہ اسماعیل خان ہے محکمہ پولیس کے ریکارڈ سے حاصل کیے گئے اعدادو شمار کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں 1984 سے اب تک 400 سے زائد وارداتیں ہو چکی ہیں جن میں 700 سے زائد افراد شہید ہو گئے۔ شہید ہونے والے افراد میں جہاں عام شہری شامل تھے وہیں سیکیورٹی فورسز سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔
تھانہ سٹی ڈیرہ اسماعیل خان کی رپورٹ کے مطابق 2007 سے 2018 تک 13 پولیس اہلکار شہید ہوئے، تھانہ ڈیرہ ٹاؤن کے 4، تھانہ صدر کے 2007 سے 2021 تک 11 اہلکار جبکہ تھانہ کینٹ کے 2007 سے 2019 تک 67 پولیس اہلکار دہشت گردی کی وارداتوں میں شہید ہو چکے ہیں جن میں 4 انسپیکٹر، 44 کانسٹیبل، 14 ہیڈ کانسٹیبل، 1 ڈرائیور ہیڈ کانسٹیبل، 8 ایل ایچ سی، 3 اے ایس آئی، 3 ڈی ایس پی، 4 ایف سی، 1 پی اے ایس آئی اور ایک ایس آئی شامل تھے۔ شہید ہونے والے افراد کی اکثریت شادی شدہ تھی اور ان کی شہادت کے بعد ان کے گھر والوں کے لیے زندگی گزارنا ایک کٹھن مرحلہ تھا۔
اس حوالے سے محلہ وکیلانوالہ کی رہائشی نگہت پروین جن کے شوہر قیصر جہاں جو 14 جنوری 2015 میں شہید ہوئے ، نے بتایا کہ ان کے تین بچے ہیں جو شوہر کی وفات کے وقت کم عمر تھے نگہت کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے باقی فنڈز تو ہمیں دیے گئے لیکن تعلیم کے لیے مختص فنڈ میں سے ایک روپیہ تک نہیں دیا گیا بلکہ جب بھی تعلیم کا فنڈ حاصل کرنے کے کوشش کی کوئی جواب نہیں ملا میری بیٹی میڈیکل کی طالبہ ہے اور آج کے دور میں میڈیکل کا خرچہ عام آدمی کی لیے نا قابلِ برداشت ہے حکومتی پالیسی کے مطابق شہداء کے گھر والوں میں سے کسی ایک فرد کو محکمہ پولیس میں شہداء کوٹے میں نوکری مہیا کی جانی تھی لیکن میرے بڑے بیٹے نے پچھلے تین سالوں سے نوکری کے لیے درخواست دی ہوئی ہے اور مسلسل کوششوں میں مصروف ہے مگر ابھی تک خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔
اسی طرح محلہ جوگیانوالہ کے رہنے والے انسپیکٹر ہیبت علی خان جو 4 اکتوبر 2007 میں شہید ہوئے، کی بیوہ سلمی اختر کے مطابق ان کے تین بچے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں انسپیکٹر ہیبت کی شہادت کے وقت بڑا بیٹا 13 سال دوسرا 9 سال جبکہ بیٹی 5 سال کی تھی اس وقت دستیاب فنڈ سے ہماری امداد کی گئی تھی بچوں کے تعلیمی اخراجات بھی فراہم کیے گئے تھے لیکن ہم سے جو چھن چکا ہے وہ تو واپس نہیں آ سکتا بڑا بیٹا آج تک ذہنی دباؤ کا شکار ہے اور میں خود بھی اذیت محسوس کرتی ہوں یہ سب بتاتے ہوئے انسپیکٹر شہید کی بیوہ سلمی اختر آبدیدہ ہوگئیں ۔
سرکاری ذرائع کے مطابق شہداء کی بیوگان کی ہر ممکن مالی مدد کی جاتی ہے اور شہداء کوٹے کے تحت ملازمت بھی فراہم کی جاتی ہے محکمہ پولیس اپنے شہداء پر فخر کرتا ہے ان کی خدمات اور ملک و قوم کے لیے اپنی جان قربان کرنے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے لیکن شہداء کے کچھ خاندان ایسے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ہمیں تعلیمی فنڈ نہیں مل رہا یا تعلیمی فنڈ کے لیے ہمیں چکر لگوائے جاتے ہیں۔
کچھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی سالوں کی خجل خواری کے باوجود تاحال شہداء کوٹے میں انہیں ملازمت نہیں دی گئی۔ محکمہ پولیس اور حکومت خیبرپختونخوا کو چاہیے کہ فی الفور ان کے مسائل کو حل کرے تا کہ وہ معاشرے میں آسودہ زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں اور ایک فعال اور زمہ دار شہری کا کردار نبھا سکیں۔