صفحہ اول / آرکائیو / سابق چیئرمین رمیز راجا کے بیان پر پی سی بی کا ردعمل سامنے آگیا

سابق چیئرمین رمیز راجا کے بیان پر پی سی بی کا ردعمل سامنے آگیا

کراچی – پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے سابق سابق چیئرمین رمیز راجا کی جانب سے پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی کے خلاف لگائے گئے الزامات کی تردید کردی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے سابق چیئرمین رمیز راجا کی جانب سے پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی کے خلاف سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور ایک ٹی وی انٹرویو میں دئیے گئے بیانات اور استعمال کی گئی زبان پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

پی سی بی سمجھتا ہے کہ سابق چیئرمین رمیز راجہ کی جانب سے دئیے گئے ان بیانات کا مقصد موجودہ چیئرمین نجم سیٹھی کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔ پی سی بی اپنے چیئرمین اور ادارے کی ساکھ کے دفاع اور تحفظ کے لیے قانونی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

ریکارڈ کی درستگی کے لیے چند حقائق مندرجہ ذیل ہیں:
پی سی بی کے پیٹرن نے، شائقین کرکٹ اور منتظمین کے ساتھ ساتھ سابقہ اور موجودہ کرکٹرز کے کھلاڑیوں کی نوکریوں، فلاح و بہبود اور کیریئر کے تحفظ سے متعلق مقبول ترین مطالبہ پرپی سی بی کے آئین 2014 کو بحال کرکے اپنے آئینی حق کا استعمال کیا ہے کیونکہ یہ محکمہ جاتی کرکٹ کے کردار کو تسلیم کرتا ہے۔ جو کہ پی ٹی آئی حکومت کے دوران نافذ العمل پی سی بی کے آئین 2019 میں نہیں تھا۔

پی سی بی کے چیف آپریٹنگ آفیسر سلمان نصیر نے پہلے ہی رمیز راجہ کے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے کہ انہیں اپنا سامان اکٹھا کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ وہ اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ سامان خود انہوں نے اکٹھا کیا اور وہ آج (بدھ) کو رمیز راجہ کو واپس کر دیا جائے گا۔ رمیز راجہ کو قذافی اسٹیڈیم کے احاطے میں داخل ہونے سے کبھی نہیں روکا گیا اور مستقبل میں بھی ان کا خیر مقدم کیا جائے گا۔

نجم سیٹھی، اگست 2017 میں تین سال کے لیے پی سی بی کے 34 ویں چیئرمین منتخب ہوئے تھے تاہم جولائی 2018 کے عام انتخابات میں ان کی نامزدگی کرنے والی سیاسی پارٹی کو شکست ہوئی تو انہوں نے اپنی مدت میں دو سال باقی رہنے کے باوجود رضاکارانہ طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ یہ واضح طور پر ان کی سوچ اور ان کے مثبت رویہ کی مکمل نشاندہی کرتا ہے۔

یہ حقیقت بھی عام ہے کہ 27 اگست 2022 کو اس وقت کے پیٹرن کی طرف سے رمیز راجا کی بورڈ آف گورنرز میں نامزدگی کے 10 دن بعد سابق کپتان اور پاکستان کے معروف کرکٹر مصباح الحق اور وقار یونس کو 6 ستمبر 2021 کو مستعفی ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔ اسی طرح ورلڈکپ سے قبل اسکواڈ میں بھی تین تبدیلیاں کی گئی تھیں۔

پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی نے 23 دسمبر 2022 کو اپنی پہلی میٹنگ میں پی سی بی کے آئین 2019 کی منسوخی کے تحت قومی سلیکشن کمیٹیوں سمیت تمام کمیٹیوں کو تحلیل کرنے کی منظوری دی تھی۔ نتیجتاً، 24 دسمبر 2022 کو، سابق کپتان شاہد آفریدی کو قومی مینز کرکٹ ٹیم کی عبوری سلیکشن کمیٹی کا سربراہ مقرر کردیا گیا۔

سابق چیئرمین رمیز راجہ کا اپنے اور موجودہ چیئرمین نجم سیٹھی کے سابقہ دور کے اخراجات کے بارے میں موازنہ گمراہ کن اور غلط ہے ۔ اس حوالے سے چند تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں۔۔

پاکستان سپر لیگ کے ۲۰۱۶ تا ۲۰۱۸ تک تین ایڈیشنز بیرون ملک میں منعقد ہوئے، اس ٹورنامنٹ کی غرض سے یو اے ای کے متعدد دوروں کے باوجود نجم سیٹھی نے کبھی بھی پی ایس ایل الاؤنس وصول نہیں کیا تھا۔ اس کے برعکس، رمیز راجہ کی زیر سربراہی پی ایس ایل 2022 کا انعقاد صرف کراچی اور لاہور میں کیا گیا تھا۔

موجودہ چیئرمین نجم سیٹھی کے غیر ملکی دوروں کے اخراجات بہت زیادہ ہیں کیونکہ ان کے گزشتہ دور میں پی ایس ایل اور پاکستان کے ہوم انٹرنیشنل میچز پاکستان سے باہر کھیلے جاتے تھے۔ اس لیے موجودہ چیئرمین کو پی ایس ایل اور دو طرفہ سیریز سے متعلق معاملات کی غرض سے اکثر متحدہ عرب امارات کے دورے کرنے پڑتے تھے۔ اس حوالے سے تمام سفری اخراجات متعلقہ حکام کی منظوری سے کیے جاتے تھے جس کا باقاعدہ (اندرونی اور بیرونی طور پر) آڈٹ کیا گیا تھا۔

موجودہ چیئرمین نجم سیٹھی کو گاڑی کا الاؤنس بھی بورڈ آف گورنر کی منظوری کے مطابق ادا کیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے سیکیورٹی خطرات کی وجہ سے اپنی ذاتی بلٹ پروف گاڑی استعمال کی گئی تھی۔ اس کے برعکس، پی سی بی نے سابق چیئرمین رمیز راجہ کو ایک بالکل نئی بلٹ پروف گاڑی فراہم کی جس کی قیمت 16.5 ملین روپے تھی۔

موجودہ چیئرمین نجم سیٹھی کی سیکیورٹی کے اخراجات بہت زیادہ تھے کیونکہ انہیں اضافی سیکیورٹی فراہم کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ وہ صوبہ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ تھے اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے انہیں باقاعدہ ایڈوائزری جاری کی گئی تھی۔

یاد رہے کہ موجودہ چیئرمین نجم سیٹھی نے پی سی بی کی کارپوریٹ ویب سائٹ کے ذریعے اخراجات کو پبلک کرنے پر پی سی بی کو قانونی نوٹس بھی بھیجا تھا۔ مندرجہ بالا پانچ نکات واضح طور پر ثابت کرتے ہیں کہ ۳ میں قطعی طور پر کوئی غلطیاں نہیں تھیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے