صفحہ اول / آرکائیو / مہمند میں تعلیمی بدحالی، طالبات کا حصول تعلیم کیلئے احتجاج

مہمند میں تعلیمی بدحالی، طالبات کا حصول تعلیم کیلئے احتجاج

سعید بادشاہ مہمند

قبائیلی ضلع مہمند میں بچیاں حصول تعلیم کے لئے احتجاج پرمجبور۔۔۔

زیادہ دور نہیں دس بارہ سال پہلے کی بات ہے جب حکومت قبائیلی ضلع مہمند میں لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کے لئے والدین کو راضی و قائل کرنے کے لئے مختلف پلیٹ فارمز سے عوامی شعور بیداری کی مہم چلاتے۔ اور بچیوں کو سکولوں میں داخلے کے عوض خاندان کو فوڈپیکجز دئیے جاتے۔ مگر پھر بھی لوگ خواتین کی تعلیم میں لیت و لعل سے کام لیتے۔ اب صورتحال مختلف ہوگئی ہے۔ والدین بچیوں کے لئے تعلیم مانگ رہے ہیں۔ مگر محکمہ تعلیم دور افتادہ پسماندہ علاقوں میں فیمیل ٹیچنگ سٹاف فراہمی میں ناکام نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی بار بعض علاقوں میں لڑکیاں خالی سکولز کے سامنے احتجاج کررہی ہیں۔

تحصیل امبار قبائیلی ضلع مہمند کے پسماندہ علاقوں میں سے ایک ہے جس کی آبادی 2017مردم شمارہ کیمطابق 62109 نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں پر اتمان خیل قبیلہ آبادہے۔ امبار سے روزانہ دو درجن سے ذیادہ ٹرکس معدنیات اورتقریبا چالیس پک اپ سبزیاں سپلائی ملک کے مختلف علاقوں کو سپلائی کی جاتی ہیں۔جس سے سرمایہ کار کروڑوں اور سبزی کے بیوپاری لاکھوں کمارہے ہیں۔اور حکومت کو بھی سالانہ کروڑوں روپے ٹیکس دیا جاتا ہے۔مگر امبار اتمان خیل کے لوگ دورجدیدمیں بھی پتھرکے زمانے جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔گزشتہ ایک مہینے سے تحصیل امبار میں قائم گرلز سکولوں میں داخل طالبات ٹیچنگ سٹاف نہ ہونے کے خلاف احتجاج کرتی رہی ہیں۔

اس حوالے سے مقامی باشندے لقمان نے بتایاکہ تحصیل امبار بنیادی سہولیات سے محروم علاقہ رہاہے۔پورے تحصیل میں لڑکیوں کیلئے دو پرائمری اور ایک مڈل سکول قائم ہیں۔مگر تدریسی عملہ کے غیرحاضری سے یہ تعلیمی ادارے بھوت بنگلے بن کر رہ گئے ہیں۔متعلقہ محکموں کوباربارشکایات کاکوئی نتیجہ نہ نکل سکاہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ وقت میں خواتین کی شرح خواندگی صفر جبکہ غربت کی وجہ مردانہ خواندگی بھی تسلی بخش نہیں ہے۔تحصیل امبار سے کے معدنیات سے اربوں سرمایہ کمانے والوں اور منتخب نمائندے بھی علاقے میں فروغ تعلیم کے لئے کچھ نہیں کرسکے ہیں۔جو کہ مقامی لوگوں کے لئے ایک مایوس کن حقیقت ہے۔

قبائیلی ضلع مہمند میں تعلیم نسواں کی اہمیت سمجھنے والوں کی تعداد میں گزشتہ دس سال سے مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ وہ قبائیلی والدین جو کبھی لڑکیوں کی تعلیم کومعیوب اور رواج کے خلاف سمجھتے تھے۔ اب دور پسماندہ علاقوں میں مقامی طور پر جرگے منعقد کرتے ہیں اور حکومت سے لڑکیوں کی تعلیم کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ایسا ہی ایک جرگہ گزشتہ دنوں تحصیل حلیمزئی کے دور افتادہ علاقہ شاہ بیگ میں منعقد ہوا۔ جس میں آس پاس کے مختلف گاؤں کی مکینوں نے شرکت کی۔

منعقدہ جرگہ میں ملک گلاب شیرمہمند اور کسان کونسلرنذیرخان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔کہ قوم شاہ بیگ کے12گاؤں ہیں۔ جس کی آبادی تقریبا چودہ ہزار آبادی کی بچیاں تعلیم سے محروم رہی ہیں۔ملک گلاب شیر نے کہا کہ ہم نے گرلز سکول کی قیام کیلئے ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ محکموں کوکئی بار درخواستیں دے رکھی ہےمگر طویل عرصہ گزرنے کے باوجودبھی کوئی شنوائی نہ ہوسکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تاحال ہمارے علاقے میں کوئی گرلز پرائمری سکول قائم نہیں۔انہوں نے الزام لگایا کہ ضلع بھرمیں موزوں مقامات کی بجائے زیادہ ترصحت و تعلیمی مراکز اثر رسوخ اورمراعات کے طور پر دئیے گئے ہیں۔انہوں نے بتایاکہ علاقہ شاہ بیگ و ملحقہ آبادی میں کوئی گرلز سکول نہ ہونے سے زنانہ خواندگی شرح صفرفیصدہے۔یہاں پر خواتین نسل درنسل ناخواندہ چلی آرہی ہیں۔اور بچپن سے لیکر جوانی اور بڑھاپے تک مشقت اور سخت زندگی گزارتی ہیں۔

قبائیلی ضلع مہمندکے تحصیل صافی میں گرلز ہائی سکول شوہ فرش میں دو سو بچیوں کیلئے صرف ایک استانی ڈیوٹی سرانجام دے رہی ہیں۔والدین الزام لگاتے ہیں کہ محکمہ تعلیم کے اساتذہ یہاں سے بھرتی ہوجاتے ہیں اور کچھ وقت بعد ہی اپنے سہولت کے لئے اثر رسوخ پر اپنا ٹرانسفر دوسرے علاقوں کو کرکے بچیوں کو بے یار مددگار چھوڑ دیتی ہیں۔جبکہ اثر رسوخ و ملی بھگت سے عارضی تبادلے کرکے بعض اساتذہ کو گھروں پر تنخواہیں دی جارہی ہیں۔جوکہ ان طالبات کے ساتھ سراسر ظلم و ناانصافی ہیں۔

محکمہ تعلیم کے فیمیل ڈی ای او مہمند زبیدہ خٹک نے رابطہ کرنے پر میڈیا کو بتایا کہ میں نے حال ہی میں یہاں کی چارج سنبھال لی ہے۔ہم کوشش کررہے ہیں کہ ضلع مہمند میں تمام فیملیز سکولوں کے دوریں کریں۔ اور متاثرہ سکولوں کی ضروریات و مشکلات کو جلدحل کرینگے۔اساتذہ کی غیر حاضری برداشت نہیں کی جائیگی اور جلد عارضی تبادلوں کو بھی منسوخ کرکے استذہ کی ڈیوٹیوں پر حاضری یقینی بنایا جائیگا تاکہ یہاں پر لڑکیوں کی تعلیم کو عام کرکے والدین کی مایوسی کو ختم کیاجاسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے