تحریر: محمد فخرالاسلام کاکاخیل
صوبہ خیبر پختونخواہ جو بجلی، گیس اور تیل کا پروڈکشن زون صوبہ ہے مگر بدقسمتی سے یہاں کے عوام تاحال بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔
2005 کے بعد خیبر پختونخواہ بالخصوص قبائلی اضلاع دہشت گردی کے شکار ہوئے، دہشت گردوں نے قبائلی اضلاع میں ٹھکانے بنا کر بندوق کے نوک پر شریعت کے نفاذ کے لئے تحریک شروع کر دی۔
قبائلی اضلاع کے جن نامی گرامی معززین علاقہ و عمائدین نے بندوق کے نوک پر شریعت کے نفاذ سے اختلاف کیا تو انہیں یا تو اغواء کر کے قتل کیا یا پھر زبح کر کے دیگر کیلئے نشان عبرت بنایا گیا۔
قبائلی ضلع اورکزئی میں 10 اکتوبر 2008 کو جب طالبان کے خلاف علی خیل خادیزئی میں قبائلی عمائدین نے جرگہ بلایا تو دہشت گردوں نے پک اپ گاڑی میں 300 کلو گرام بارودی مواد سے جرگہ کے دوران دھماکہ کر دیا جس میں اورکزئی عوام کے 50 سے زائد معزز عمائدین جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہو گئے تھے، جس کی ذمہ داری بھی کلعدم تنظیم نے قبول کی تھی۔
اس طرح کے شدت پسندانہ واقعات کے بعد قبائلی عوام میں شدت پسندوں کی دہشت اور خوف مزید پھیل گیا اور لوگ نقل مکانی کرنے لگے، اسی طرح دیگر قبائلی علاقوں میں بھی مشران کو نشانہ بنانا گیا۔
وقت کیساتھ ساتھ یہ تحریک مزید سنگین شکل اختیار کر گی اور لوگوں پر زبردستی شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے دباو ڈالا گیا اور ساتھ ہی دھمکی آمیز پرچوں کے زریعے بھتے بھی لینے لگے۔
اس جنگ میں عوام اور افواج پاکستان و دیگر فورسز اداروں نے بیش بہا قربانیاں دیں، کسی سے اپنے لخت جگر جدا ہو گئے تو کسی کے گھر کے سربراہ کو نشانہ بنا کر ان کے گھر اجڑ گئے۔
دہشت گردی کی یہ لہر قبائلی اضلاع سے پورے خیبر پختونخواہ تک پھیل گیا اور اسی طرح دہشت گرد پورے پاکستان میں معصوم عوام کو نشانہ بنانے لگے۔
دہشت گردوں کا تعلق کسی بھی سے نہیں تھا بلکہ دہشت گردی کے اس لہر میں پاکستانی فوج، سیاست دان قبائلی مشران، صحافی، پولیسں و سول افسران و اہلکاران، علماء کرام سمیت ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا، دہشت گردوں کی دہشت زدہ کاروائیوں سے کوئی بھی محفوظ نہ رہا۔
شریعت کے نام پر شروع اس تحریک کے خلاف جو علماء کرام میدان میں آئے تو انہیں بھی سرعام بے دردی کیساتھ قتل کیا گیا، دہشت گردوان نے شیخ الحدیث مولانا شیخ حسن جان سمیت بڑے بڑے علماء کرام کو بھی راستے سے ہٹا دیا۔
آخر کار سیکورٹی ایجنسیوں نے ان دہشت گردوں کیخلاف آپریشن کا فیصلہ کیا، مختلف نام دے کر سیکورٹی آپریشن کئے گئے اور پھر 5 جون 2014 کو ضرب عذب کے نام پر ایک بڑا آپریشن شروع کردیا لیکن بدقسمتی سے چند مہینوں بعد 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول APS پر حملہ کیا گیا جو صرف خیبر پختونخواہ اور پاکستان کیلئے ہی نہیں بلکہ پورے دنیا کے لئے ایک آفسوس ناک واقعہ تھا۔
جس کے بعد سیکورٹی اداروں اور ملک کے تمام سیاسی جماعتوں نے مل بیٹھ کر ضرب عذب آپریشن میں تیزی لانے پر زور دیا جو کہ دہشت گردوں کی جبر کی شریعت اور تحریک میں آخری کیل ثابت ہوا۔
لیکن وقت کیساتھ ساتھ سیکورٹی آپریشنز کی وجہ سے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی، زیادہ تر دہشت گرد ہلاک کئے گئے اور جو بچ گئے وہ پاکستان چھوڑ کر افغانستان فرار ہو گئے۔ اسی طرح حالات امن کی طرف جانے لگے، سالوں بعد قبائلی عوام کی دوبارہ آبائی علاقوں میں آبادکاری کیلئے اقدامات شروع کئے گئے۔
سیکورٹی آپریشن میں بھی قبائلی عوام بے گھر ہو گئے تھے اور مختلف علاقوں میں کیمپوں میں بے حسی اور تنگدستی کی زندگی گزارنے لگے، قبائلی غیور عوام کے وہم و گمان میں نہیں کہ وہ اس طرح کے بے بسی کی زندگی گزاریں گے۔
2015 کے بعد سے 2022 تک حالات ایک قدرے بہتر گزرے مگر اس دوران بھی کچھ واقعات اور حادثات رونما ہوئے تاہم ملک بھر کے عوام ایک حد تک بہتر محسوس کر رہے تھے۔
2022 کے بعد سے دوبارہ دہشت گردوں کی موومنٹ شروع ہو گئی ہے اور دہشت گردوں نے مختلف علاقوں میں بھتے مانگنے اور ٹارگٹ کلنگ کی کاروائیاں شروع کر دی ہے جبکہ سیکورٹی حکام کو لگتا ہے کہ موجودہ کاروائیوں کے ماسٹر مائنڈ افغانستان میں پناہ گزین ہے اور وہاں سے دہشت گردی کے کاروائیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ جس پر پاکستان نے افغانستان طالبان حکومت کو آگاہ بھی کیا ہے۔
پاکستان بالخصوص خیبر پختونخواہ کے عوام کا اس بات سے کوئی سروکار نہیان کہ دہشت گرد کہاں سے کنٹرول ہو رہے ہیںں بلکہ یہاں کے لوگ چاہتے ہیں کہ دہشت گرد کسی بھی فرقے کا مسلک سے ہو یا پھر کسی بھی جگہ پر ہو تو ان کیخلاف فوری کاروائی کرنی چاہئیے تاکہ ملک بھی محفوظ رہے اور ماضی کی طرح دہشت گرد دوبارہ ان علاقوں میں آبادکاری نہ کر سکے۔
عوام اگر دوبارہ دہشت گردی کی لہر سے بچنا چاہتی ہے تو انہیں کسی بھی دہشت گردی کے واقعات کیخلاف متحد رہنا چاہئیے اور دہشت گردوں کی سہولت کاری سے مکمل طور پر گریز کرنا چاہئیے۔