صفحہ اول / آرکائیو / صنفی بنیاد پر تشدد اور قبائلی روایات.

صنفی بنیاد پر تشدد اور قبائلی روایات.

تحریر: وطن زیب

صنفی بنیاد پر تشدد ایک وسیع اصطلاح ہے جو انسانی ہمدردی کی تنظیموں کے ذریعہ استعمال ہوتی ہے جس سے مراد کسی بھی شخص کو ان کی جنس کی وجہ سے جسمانی، جنسی، نفسیاتی یا معاشی نقصان پہنچایا جاتا ہے، چاہے وہ عوامی ہو یا نجی زندگی میں واقع ہو کو صنفی بنیاد پر تشدد کہتے ہیں۔

گاؤں میں صبح تقریباً 9 بجے کا ٹائم تھا معمول کے مطابق میں اپنے گھر میں تھا اور بازار جانے کی تیاری کررہا تھا کہ اچانک کسی کے گھر کے سامنے فائرنگ کی آواز سنائی دی ، یوں لگا کے شاید کسی کو گولی مار دی گئی ہو ۔
باہر جا کر دیکھا تو ہوائی فائرنگ تھی اور ہوائی فائرنگ کرنے والا شخص دراصل ” غگ ” رسم پر عمل کر رہا تھا ۔
"غگ” کچھ یوں تھا کہ اس گھر میں جو خاتون رہتی ہے وہ صرف میری ہے اور میں اس سے شادی کروں گا کسی اور کو اس سے شادی نہیں کرنے دوں گا اگر اسی دوران کسی اور نے اس سے شادی کرنے کی کوشش کی تو میں اسے مار دوں گا ۔
رپورٹ کے مطابق فائرنگ کرنے والا شخص کا تعلق وزیرستان سے تھا جس نے غگ کیا کہ وہ مدعی کی بیٹی سے شادی کرے گا اور ساتھ میں متعلقہ شخص نے یہ علان بھی کیا کہ اگر کسی اور نے اس لڑکی سے شادی کی کوشش کی تو وہ اسے مار دے گا ۔
لڑکی کی عمر 16 سال بتائی گئی ہے رپورٹ میں متاثرہ لڑکی کے والد کے مطابق میری بیٹی ب،ج بی بی کا رشتہ پہلے سے ہی میرے بھتیجے سے ہوا ہے، لیکن ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی ہے۔ میری بیٹی اس رشتے سے خوش ہے اور کسی بھی صورت میں کسی اور کے ساتھ شادی کرنے کو تیار نہیں ۔
غگ کرنے والے شخص کی متاثرہ گھر والوں نے ساتھ پرانی دشمنی بھی ہے ۔
متعلقہ تھانے کے پولیس نے بتایا کہ ملزم کے خلاف غگ ایکٹ 4/506 کے تحت کاروائی کرکے ملزم کو گرفتار کرلیا گیا ہے ۔
پولیس نے مزید بتایا کہ مقامی سطح پر لوگوں سے کہا ہے کہ اس طرح کی فرسودہ روایتوں کی اجازت نہیں ہے اور کسی بھی قسم کی معافی کسی کو نہیں ملے گی ۔

غگ کیا ہے۔

غگ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ” آواز دینا یا پکار کے ہیں” یہ قبائلی علاقوں میں ایک فرسودہ روایات ہے جس میں کوئی بھی شخص کسی سے دشمنی یا کسی کو تنگ کرنے کے غرض سے کرتا ہے ۔
غگ میں عموماً کوئی لڑکا گاؤں میں کسی بھی لڑکی پر کرسکتا ہے، وہی شخص لڑکی کے گھر کے سامنے جاکر تین فائر کرے گا اور کہے گا کہ فلاں لڑکی اب سے میری ہے اور اسے جو بھی اب سے شادی کا دعویٰ کرے گا میں اسے مار دونگا۔
اس روایات میں لڑکی کے والدین کی رضامندی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے ۔
جس کے بعد فیصلہ جرگہ میں ہوتا ہے۔
فیصلہ کسی بھی قسم میں ہوسکتا ہے مثلاً غگ کرنے والے شخص کو قبائلی روایات کے مطابق یا تو پیسے دیے جاتے ہیں یا پھر ننواتے ( ننواتے پشتو زبان کا لفظ ہے اور ایک روایات بھی ہے جس میں ایک شخص کسی بھی مسلے میں دوسرے شخص کو دنبا یا بکرا اس کے گھر پر لے جاتا یے اور وہی ذبح کرتا ہے) کے ذریعے مسلے کا حل تلاش کیا جاتا ہے ۔
غگ کے بعد متاثرہ خاتون کے گھر کوئی بھی رشتہ نہیں بھیجتا اور نہ لاتا ہے اور اسی طرح اس خاتون کے لیے رشتے آنا بند ہو جاتے ہیں ۔
غگ روایات میں زیادہ تر واقعات جنوبی وزیرستان میں پیش آتے ہیں
ان روایات میں بعض اوقات لوگوں کا مقصد اس خاتون سے شادی کرنا نہیں ہوتا بلکہ خاتون کے خاندان کو تنگ کرنا یا اپنی مرضی سے ان سے کوئی بات منوانا یا پرانی دشمنی ہوتی ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ یہ رسم بنیادی طور پر جنوبی وزیرستان سے شروع ہوئی اور پھر صوبے کے دیگر علاقوں تک پھیل گئی ۔
اس رسم سے غگ شدہ خاتون اور اس کے گھر والے بری طرح متاثر ہوتے ہیں یا تو وہ خاتون ہمیشہ کے لیے گھر بیٹھ جاتی ہے یا پھر اس کے لیے اچھے رشتے آنا بند ہو جاتے ہیں۔
پولیس رپورٹ کے مطابق فاٹا انضمام کے بعد 2019 سے اب تک غگ ایکٹ کے تحت 30 سے ذیادہ کیسز درج ہوئیں ہیں، ان سب کے خلاف غگ ایکٹ کے تحت کاروائی عمل میں لائی گئی اور گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ان واقعات کے خلاف مہم شروع کی ہے اور علاقے کے مشران سے رابطہ کرکے ان کو آگاہ کیا کہ یہ ایک غیر اخلاقی اور غیر شرعی روایات ہے جس کی ہر گز اجازت نہیں
ورلڈ اکنامک فورم کی صنفی مساوات کے حوالے سے اس سال کی رپورٹ میں پاکستان کو ’دوسرا بدترین ملک’ قرار دیا گیا ہے۔
بدقسمتی سے پچھلے کئی سالوں سے مسلسل اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کارکردگی میں کوئی خاص بہتری نہیں آ سکی ہے۔
صنفی بنیاد پر مبنی تشدد سے مراد یہ ہے کہ کسی فرد پر اس کی جنس کی بنیاد پر تشدد کیا جائے۔ صنف کی بنیاد پر اس امتیازی رویے کی جڑیں صنفی عدم مساوات، طاقت کا غلط استعمال اور فرسودہ معاشرتی اصول ہیں۔ جنسی اور جنس کے بنیاد پر تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور صحت عامہ کا مسئلہ ہے۔
اس میں جسمانی، جنسی، معاشی اور نفسیاتی تشدد کے ساتھ ساتھ دھمکیاں، جبر، کم عمری میں جبری شادی اور نام نہاد غیرت کے نام پر قتل شامل ہو سکتے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت (%35) خواتین کو اپنی زندگی میں جنسی یا جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے وقت کے ساتھ ساتھ ان اعداد و شمار میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے۔

خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد متناسب اور غیر متناسب کم آمدنی والے ممالک کو یکساں متاثر کرتا ہے۔ ان اعداد و شمار کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ اس مسئلے کا حل صرف اداروں یا خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان تک محدود نہیں رکھا جا سکتا بلکہ ہر شہری کو آگے بڑھ کر اپنا اپنا کردار سمجھنا اور اس کو صحیح معنوں میں نبھانا ہو گا تب جا کر کچھ بہتری آ سکے گی۔
اور اس وجہ سے شاید اگلے چند سالوں میں پاکستان میں بھی مجموعی طور پر بہتری آ سکے اور بہت جلد ہمیں وہ وقت دیکھنا نصیب ہو جب ورلڈ اکنامک فورم کی صنفی مساوات کے متعلق رپورٹ میں نہ صرف پاکستان کی پوزیشن میں بہتری آئے بلکہ ہم دوسرے ممالک کے لیے مثال بن سکیں۔
صنفی مساوات کے حصول اور خواتین کے خلاف تشدد کے لیے خواتین اور صنفی بنیاد پر تشدد کے خاتمے کے لیے کام کرنے والوں کی مدد کرنا ضروری ہے اور ہمیں ایسے مسائل سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہئے اور سوشل میڈیا پر بات چیت شروع کرنے اور صنفی بنیاد پر تشدد سے متاثرہ افراد کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال صرف ایک چھوٹا سا عمل ہے جو کمیونٹیز میں مثبت تبدیلی پیدا کرسکتا ہے ۔
حکومت کو چائیے کہ ایسے منصوبے اور پالیسیاں عمل میں لائی جانی چائیے، جس میں خواتین اور لڑکیوں کو جنسی صحت کی دیکھ بھال اور حقوق کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں اور ان کے لیے سپورٹ گروپ بنائے جائیں جہاں کسی بھی مسلے کی صورت میں وہ اعتماد سے بات کرسکیں اور درکار معاونت و رہنمائی حاصل کر سکیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے