صفحہ اول / آرکائیو / افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی علاقائی امن کے لیے مسلسل خطرات کا باعث ہے، افغانستان کے پڑوسی ممالک کی چوتھی وزارتی کانفرنس کی جانب سے عسکریت پسند گروپوں کے زیر استعمال افغان سرزمین پر پاکستان کے موقف کی تائید

افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی علاقائی امن کے لیے مسلسل خطرات کا باعث ہے، افغانستان کے پڑوسی ممالک کی چوتھی وزارتی کانفرنس کی جانب سے عسکریت پسند گروپوں کے زیر استعمال افغان سرزمین پر پاکستان کے موقف کی تائید

اسلام آباد: افغانستان کے پڑوسی ممالک کی ازبکستان کے شہر سمرقند میں چوتھی وزارتی کانفرنس نے اپنے اجلاس میں پاکستان کے موقف کی تائید کی ہے کہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی علاقائی امن کے لیے مسلسل خطرات کا باعث ہے، اس موقف کی پاکستان طویل عرصے سے وکالت کرتا رہا ہے۔ اجلاس کے دوران فریقین نے نشاندہی کی کہ تمام دہشت گرد گروہ، یعنی دولت اسلامیہ عراق و شام (آئی ایس آئی ایل)، القاعدہ، ایسٹرن ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم)، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے)، جنداللہ، جیش العدل، جماعت انصار اللہ، ازبکستان کی اسلامی تحریک (آئی ایم یو) اور افغانستان میں موجود دیگر دہشت گرد تنظیمیں علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے بدستور سنگین خطرہ بنی ہوئی ہیں۔

حال ہی میں ریڈیو فری یورپ نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ امریکہ کے افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلاءکے بعد اس نے اپنے پیچھے 7 ارب ڈالر کا فوجی سازوسامان اور اسلحہ چھوڑا جس سے بعد میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ علیحدگی پسند گروپس کی عسکری صلاحیتوں میں اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ نے اپنے پیچھے ہتھیار اور آلات چھوڑے ہیں جن میں آتشیں اسلحہ، کمیونیکیشن گیئر، حتیٰ کہ بکتر بند گاڑیاں بھی شامل ہیں۔ اس اجلاس میں چین، ایران، پاکستان، روس، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

پڑوسی ممالک کے اجلاس میں کہا گیا کہ افغانستان میں دہشت گردی سے متعلق سلامتی کی صورتحال اب بھی سنگین ہے اور انہوں نے انسداد دہشت گردی کے لئے تعاون بڑھانے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا اور ہمسایہ ممالک کے درمیان دہشت گردی کے خلاف متحدہ محاذ تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کو کم کرنے کے لیے کسی بھی علاقائی یا بین الاقوامی کوششوں کی کامیابی آئی اے جی کی سنجیدگی سے مشروط رہے گی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔

طالبان کے قبضے کے بعد سے پاکستان نے ایک جامع سیاسی ڈھانچے کے قیام، اعتدال پسند ملکی اور خارجہ پالیسیوں کو اپنانے اور نسلی گروہوں، خواتین اور بچوں سمیت تمام افغانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ پر زور دیا ہے۔ افغان حکام کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بھی واضح اقدامات کرنے ہوں گے کہ افغانستان دوبارہ کبھی بھی دہشت گردی کی افزائش، محفوظ پناہ گاہ یا ذریعہ کے طور پر کام نہ کرے۔ دہشت گردی مشترکہ دشمن ہے اور امن و استحکام اجتماعی ذمہ داری ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ کہا کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کو کم کرنے کے لیے کسی بھی علاقائی یا بین الاقوامی کوشش کی کامیابی آئی اے جی کی سنجیدگی سے مشروط رہے گی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔ افغانستان پر طالبان کے قبضہ کے بعد سے پاکستان نے ایک جامع سیاسی ڈھانچے کے قیام، اعتدال پسند ملکی اور خارجہ پالیسیوں کو اپنانے اور نسلی گروہوں، خواتین اور بچوں سمیت تمام افغانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ پر زور دیا۔

افغان حکام کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بھی واضح اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ افغانستان دوبارہ کبھی بھی دہشت گردی کی محفوظ پناہ گاہ یا ذریعہ کے طور پر کام نہ کرے۔ سکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی مشترکہ دشمن ہے اور امن و استحکام اجتماعی ذمہ داری ہے، پاکستان مخالف عناصر پر لگام لگانے اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف نہ جانے دینے کے لیے اے آئی جی کی طرف سے کوئی بھی کارروائی دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کو مضبوط کرے گی۔

وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر جنہوں نے اجلاس سے خطاب کیا، کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان سے دہشت گرد تنظیموں کو ختم کرنے کے لیے بلا تفریق، مربوط اور یکساں انداز میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے، عبوری افغان حکومت کے ساتھ وسیع تر تعاون اور ہم آہنگی اب بھی اہم ہے اور یہ کہ ہم اس مقصد کے لیے پڑوسی ریاستوں اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی لعنت روزانہ کی بنیاد پر افغان عوام کی زندگیوں کو نقصان پہنچا رہی ہے اور دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے پڑوسی ریاستوں اور خطے کو لاحق خطرات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے