صفحہ اول / آرکائیو / موسمیاتی تغیر۔ نقصانات اور ہماری زمہ داریاں

موسمیاتی تغیر۔ نقصانات اور ہماری زمہ داریاں

تحریر: محمد فضل الرحمان

موسمیاتی تبدیلی ایک ایسا سنگین مسئلہ ہے جس پر مجموعی طور پر وہ توجہ مبذول نہیں کی جارہی جو اس مسئلہ سے مستقبل میں ہنے والے نقصان کے ازالہ کے لیئے انتہائی ضرری ہے، مجموعی طور پر سردیوں اور گرمیوں کے ایام میں طوالت، بے موسمی بارشوں کو موسمیاتی تغیر کی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے مگر اب اسی تغیر سے موحول، فصلات اور انسانی صحت پر جو اثرات مرتب ہورہے ہیں وہ انتہائی تشویش ناک ہیں،

نگران وزیر اعظم پاکستان انوار الحق کاکڑ نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں واضح طور پر کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں سرفہرست ہے، رواں مالی سال اپریل میں اقوام متحدہ کے موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) نے کہا ہے کہ متواتر موسمیاتی تبدیلی کے باعث گزشتہ برس دنیا بھر میں پہلے سے زیادہ خشک سالی، سیلاب اور شدید گرمی کی لہریں دیکھنے میں آئیں جس سے لوگوں کی زندگیوں اور روزگار کے لئے خطرات بڑھ گئے، گزشتہ برس جولائی اور اگست کے دوران پاکستان میں آنے والے بہت بڑے سیلاب میں 1,700 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو گئے جبکہ اس آفت نے مجموعی طور پر 33 ملین لوگوں کو متاثر کیا۔

ڈبلیو ایم او نے واضح کیا ہے کہ اس سیلاب سے مجموعی طو رپر 30 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا اور اکتوبر 2022 تک 8 ملین لوگ اندرون ملک بے گھر ہو چکے تھے، ڈیرہ اسما عیل خان خیبرپختونخواہ میں سب سے زیادہ قابل کاشت رقبہ کا حامل ڈویژن ہے، یہاں کا تقریبا ساڑھے پانچ لاکھ ایکڑ رقبہ زیر کاشت ہے جبکہ تقریبا پانچ لاکھ ایکڑ کے لگ بھگ رقبہ ابھی بھی پانی کے نہ ہونے کی وجہ سے کاشت کے قابل نہیں ہے، زرعی ماہرین ڈیرہ اسما عیل خان کو پاکستان کی فوڈ باسکٹ قرار دیتے ہیں،

چشمہ رائیٹ بنک کینال کی بدولت یہ ضلع ملک کو ڈیڑھ لاکھ ٹن گندم اور بیس لاکھ ٹن گنا فراہم کرتا ہے، گذشتہ سال کے سیلاب کی بدولت اگر ہم صرف چشمہ رائیٹ بنک کینال کے فیز تھری سے ہونے والے معاشی نقصان کا جائزہ لیں تو انتہائی تشویش ناک اور پریشان کن اعداد و شمار سامنے آتے ہیں،محکمہ آبپاشی کے سپریٹنڈنگ انجنیئر عقیل اظہر بتاتے ہیں کہ چشمہ رائیٹ بنک کینال بین الصوبائی نہر ہے جس کا فیز تھری تقریبا جمعہ ہیڈ سے شروع ہوکر صوبہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان تک جاتا ہے، 94 میل طویل نہر کے اس ٹکرے میں تیس میل خیبرپختونخواہ ڈیرہ اسما عیل خان اور چونسٹھ میل ڈیرہ غازی خان پنجاب شامل ہے،

مجموعی طور پر اس حصہ سے تین لاکھ باسٹھ ہزار رقبہ سیراب ہوتا ہے، اس سے ڈیرہ اسما عیل خان کا ایک لاکھ چھبیس ہزار ایکڑ رقبہ اور صوبہ پنجاب کا دولاکھ چھتیس ہزار ایکڑ رقبہ سیراب ہوتا ہے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جب یہ نہر بنائی جا رہی تھی تو اس سے دونوں صوبوں کے مستفید خاندانوں کی تعداد ترپن ہزار تھی، گذشتہ سال کے سیلاب کے دوران نہر کا یہ حصہ متعدد مقامات سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا ور نہر میں پانی کا بہاو بند ہوگیا،

وفاقی حکومت کی جانب سے سیلاب سے متاثرہ چشمہ رائیٹ بنک کینا ل کی مرمت کے لیئے سات سو ملین روپے مختص کئے گئے تھے سب سے زیادہ متاثرہ فیز تھری کی بحالی کے لیئے یکم مئی 2023 کو ڈیرہ اسما عیل خان سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم کے مشیر اور وزیر مملکت برائے سماجی تحفظ فیصل کریم کنڈی نے آبی وسائل کے وزیر مملکت محمد علی باچا کے ہمراہ فیز تھری کے بحالی کے کام کا افتتاح کیا اور ایک ماہ میں مذکورہ حصہ کی بحالی کو یقینی بنانے کی ہدایات جاری کیں مگر چار ماہ گذرنے کے باوجود نہر کی بحالی نہ ہو سکی،

ایوان زراعت کے صدر حاجی عبدالرشید دھپ کا کہنا ہے کہ نہرکی مرمت کاکام نہ ہونے کی وجہ سے علاقہ میں گنے کی فصل اسی فیصد تباہ ہوگئی ہے اور گذشتہ برس گندم کی پیداوار میں ستر فیصد کمی آئی ہے، حلقہ کے سابق ایم پی اے مولانا لطف الرحمان کہتے ہیں کہ مذکورہ نہر کی مرمت کے لیئے ہم نے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کی خصوصی کوششوں سے فنڈ منظور کرایا اور اب بھی ہم اسکی جلد تکمیل کے لیئے کوشاں ہیں،

پاکستان اور بھارت میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالہ سے شائع ہونے والے ایک رپورٹ کے مطابق شدید موسمیاتی کیفیات پانی کی کمی کے لیے خطرہ ہونے کے علاوہ، ذرائع آمدن اور زراعت کے لیے بھی تیزی سے خطرات پیدا کر رہی ہیں۔ ہر موسم گرما میں، مون سون کی شدید بارشیں پنجاب اور سندھ کی زرخیز زمینوں میں اچانک سیلاب، جائیداد کو نقصان اور زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا سبب بنتی ہیں۔

یہ نتائج ہر سال کے ساتھ ابتر ہو رہے ہیں۔ گذشتہ موسم گرما میں جیکب آباد میں درجہ حرارت ۵۱ ڈگری سیلسیئس (جو تقریباً ۱۲۳ ڈگری فارن ہائیٹ بنتا ہے) کی تاریخی بلند سطح تک پہنچ گیا تھا، جو جنوبی ایشیا میں ریکارڈ کیا گیا بلند ترین درجہ حرارت ہے۔ بھارت میں کسانوں نے تخمینہ لگایا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے سے ان کی ۱۰-۱۵ فیصد فصلیں تباہ ہو گئی تھیں۔ چونکہ اس قسم کے موسمیاتی جھٹکوں کی تعداد آنے والے برسوں میں بڑھنے کا خدشہ ہے،محکمہ آبپاشی ڈیرہ اسما عیل خان کے ایک سینئر اہلکار کا کہنا ہے صرف ڈیرہ اسما عیل خان کی حدود میں سی آر بی سی فیز تھری کے متاثر ہونے سے ایک لاکھ بیس ہزار ایکڑ سے جہاں محکمہ آبپاشی کو آبیانہ کی وصولی نہ ہونے سے حکومت کو نقصان ہوا ہے وہیں گذشتہ سال کے وصول شدہ آبیانہ کی روشنی میں نہر کے مذکورہ متاثرہ حصہ سے اس سے منسلک زمینداروں کو ایک سال میں ہونے والے نقصان کا تخمینہ چوالیس بیلن روپے ہے اسی طرح نہر کے صوبہ پنجاب کی حدود میں شامل چونسٹھ میل سے منسلک دولاکھ چھتیس ہزار ایکڑ کے زمینداروں کو ہونے والا نقصان اور پھر حکومت کو آبیانہ کی عدم ادائیگی سے ہونے والا نقصان خیبر پختونخواہ سے کہیں زیادہ ہے،

موسمیاتی تغیر کے اثرات جہاں گندم، کپاس، چاول اور گنے کی فصل کو متاثر کررہے ہیں وہیں ڈیرہ اسما عیل خان میں کھجور کی پیداوار سے منسلک لوگ بھی موسمیاتی تغیر اور اس سے ملحقہ عوامل سے شدید پریشان ہیں،رتہ کلاچی تحقیقی مرکز کے فوڈ ٹیکنالوجی سیکشن کے انچارج معروف ایوارڈ یافتہ زرعی سائنسدان ڈاکٹر شہزادہ ارشد سلیم سدوزئی کا بتانا تھا کہ کھجور کی فصل موسمیاتی تبدیلی کے باعث متاثر ہورہی ہے ڈیرہ اسما عیل خان کی ڈھکی کی کھجور کو دنیا بھر میں اسکے سائز، زائقے اور دیگر خصوصیات کی بدولت امتیازی حیثیت حاصل ہے، جب کھجور کی پولی نیشن کا مرحلہ آتا ہے تو اگر اس موقع پر بے موسمی بارش ہوجائے تو پولن اڑ جاتا ہے اس سیزن میں بارش کے باعث پنیالہ کے علاقہ میں کھجور کی فصل چالیس فیصد تک کم ہوئی جس کی وجہ پولن بارش سے متاثر ہوا اور مقامی کاشتکاروں کے مطابق کھجور خسی رہ گئی یعنی بغیر گھٹلی کے رہ گئی، پولن کے مرحلہ کے بعد درخت پر جب کھجور کے پکنے کا وقت ہوتا ہے تب اگر بارش یا آندھی آجائے تو کجھور درخت سے گرجاتی ہے اس وقت پانی لگنے سے کھجور پر فنگس کا حملہ ہوتا ہے اور فصل متاثر ہوتی ہے اور اگر بارشیں نہ ہوں اور خشک سالی طویل ہوجائے تو کھجور کے باغات بھی تباہ ہوجاتے ہیں،

ماہرین کا کہنا ہے پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے وابستہ نئی حقیقتوں کے مطابق خود کو ڈھالنے کے لیے پائیدار زرعی ترقیاتی طریقوں اور منصوبوں میں سرمایہ کاری کرے، اس میں کلائمٹ اسمارٹ ایگریکلچر (CSA) روایات کی جانب رخ موڑنا شامل ہو سکتا ہے جیسا کہ زیادہ پیداوار دینے والی فصلوں کی جانب منتقلی، پانی کا موثر طور پر انتظام، پانی کے ضیاع میں کمی لانا، پانی کی کمیابی سے نمٹنے اور زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے چھوٹے و درمیانے سائز کے ڈیموں کی تعمیر وغیرہ شامل ہے تاہم یہ کام حکومت اکیلے نہیں کرسکتی اس حوالے عوام میں مذید شعور بیدار کرنا اور ان کا متحرک ہونا انتہائی ضروری ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے