تحریر: وطن زیب
یہ حقیقت ہے کہ نوجوان کسی بھی ملک و قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اگر یہ کہا جائے کہ نوجوان نسل کسی بھی قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتا ہے تو بےجا نہ ہوگا۔ نوجوان باصلاحیت اور مخلص ہوتے ہیں اور کوئی بھی کام کو کرنے کی قوت اور جذبہ رکھتے ہیں۔ ان کے ذہن صاف ہوتے ہیں۔ نوجوان طبقہ ہی ہے جو ماضی میں ہمیشہ نئی تبدیلیوں کا ساتھ دیتا آیا ہے۔ انبیاء کرام کی دعوت قبول کرنے والا اور ان کی پیروی کرتے ہوئے اللہ کی وحدانیت کا پیغام آگے لے جانے میں نوجوان طبقے کا کردار نمایاں رہاہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی دعوت جن صحابہ کرام نے قبول کی ان میں حضرت علی رض، جابر بن عبدالله رض، زید بن حارث ودیگر نوجوان شامل تھے ۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی قوم و ملک زوال پذیر ہوا۔ تو وہاں نوجوان نسل کی جذبات اور صلاحیت کو غلط استعمال کیا گیا ہے۔ نوجوان اگر حالات کا شعور حاصل کرے تو وہ اپنی قوت، عمل اور اخلاص سے حالات بدلنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ لیکن وہاں نوجوانوں کو دور حاضر کے تقاضوں اور حالات کے صحیح شعور سے دور رکھنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اور ان کو ایسی سرگرمیوں میں الجھا دیا جاتا ہے جس میں نوجوانوں کی صلاحیت ضائع ہو جاتی ہے ۔
موجودہ پاکستانی معاشرے میں نوجوانوں کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے نوجوانوں کے ایک بڑے طبقے کو ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے ذریعے اخلاق سے گری ہوئی سرگرمیوں میں لگا دیا گیا ہے۔ نوجوانوں کے جذبات اور اخلاص کو اپنے مضموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، مذہبی جذبات رکھنے والے معصوم نوجوانوں کوکھبی مذہب کے نام پر استعمال کیا جاتا ہے کبھی فرقہ واریت اور تعصب سے ان کے ذہنوں کو ناپاک کیا جاتاہے۔ وطن کی محبت میں سرشار نوجوانوں کوسیاست کے لئے نظریہ پاکستان کے تحفظ کی آڑ میں غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ علاقائی اور لسانی بنیادوں پر بھی انہیں آپس میں لڑایا جاتا ہے۔
ان حالات میں دو قسم کے رویے نوجوانوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ نوجوانوں کا ایک طبقہ ملکی مسائل کے حوالے سے سوچنا چھوڑ دیتا ہے۔ اور اس طبقے میں شامل نوجوان صرف اور صرف اپنے بہتر مستقبل کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں یہ نوجوان کسی حد تک مفاد پرست ہو جاتے ہیں اور ملک کی ترقی کے بجائے اپنی ذاتی ترقی کو ہی ذہن میں رکھتے ہیں ۔
دوسرا ایسے نوجوانوں کا طبقہ ہے جو ان حالات میں نہ سمجھتے ہوئے صرف تشدد کو ہی اپنے مسائل کا حل سمجھتا ہے۔ اور مختلف قسم کی پر تشدد تنظیموں میں اپنی صلاحیتوں کا غلط استعمال کرتا ہے۔
ان سارے مسائل کے ہوتے ہوئے نوجوانوں کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ان حالات اور وقت کے مطابق صحیح شعوراور آگاہی حاصل کریں۔ تاکہ کوئی ان کے اخلاص اور صلاحیت کو غلط مقاصد کے لیے استعمال نہ کر سکے۔ ان کا ذہنی شعور اتنا بلند اور پختہ ہو کے وہ جہاں بھی جائیں ان کا کردار ہمیشہ ظلم اور برائی کے خلاف ہو۔ خصوصاً ایسے نوجوانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو ملکی اور معاشرتی مسائل پر سوچنے کا ذہن رکھتے ہو اور جو ذہن ابھی بھی موجودہ حالات کے مضر اثرات سے زنگ الود نہیں ہوئے ہیں وہ ملکی حالات اور معاشرتی مسائل کا شعور حاصل کریں اور اس کو دوسرے نوجوانوں تک پہنچائیں۔
بحیثیت پاکستانی، نوجوان ایک ایسے طبقے کا نمائندہ ہے جو قوم کا اعلی اور فریش ذہن ہے وہ ایسے ملک و قوم کا تعلیم یافتہ نوجوان ہے جہاں شرحِ خواندگی بھی بہت کم ہے، تعلیم حاصل کرنے کا ماحول نہ ہونے کے برابر ہے، بے شمار تعلیمی مسائل کے ہوتے ہوئے بھی جہاں اسے تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل جائے وہاں پر قوم اور ملک کی طرف سے اس پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ملک اور قوم کی ترقی کے لیے عملی کردار ادا کریں۔ جہاں عوام بے شمار معاشی اور معاشرتی مسائل کی وجہ سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوں۔ جہاں نوجوانوں کو منفی سرگرمیوں میں مصروف کر دیا جائے وہاں باشعور سمجھدار اور تعلیم یافتہ نوجوانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کہ وہ آنکھیں کھول کر حالات کا پورے شعور کے ساتھ جائزہ لے۔ اپنی قوم اور ملک کے مسائل کو سمجھے اور حل کی راہ تلاش کریں۔کیونکہ اپنے ملک و قوم کو دنیا میں کامیاب بنانے کے لیے پہلے ایک مثالی پاکستانی معاشرہ پیدا کرنا ضروری ہے۔
نوٹ :۔ تحریر بلاگر/کالم نگار کی ذاتی آراء پر مشتمل ہوتاہے۔ ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہوناضروری نہیں