تحریر: طارق محمود مغل
ملیریا ایک متعدی بیماری ہے جس سے عوام الناس بالخصوص بچے اور خواتین بڑی تیزی سے متاثر ہو رہی ہیں اور جب اس مرض کی تشخیص ہو جاتی ہے تو پھر متاثرہ شخص یہ ضرور سوچتا ہے کہ اگر احتیاط کر لیتا تو کم از کم اس بیماری سے محفوظ رہتا۔
حکومت کے ساتھ ساتھ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور دیگر ادارے اس خطرناک بیماری کے خاتمے کے لیے ملک بھر میں مصروف عمل ہیں اور ان کے اقدامات کا مقصد اس بیماری کی شرح کو کم سے کم کرنا ہے۔ایسے اقدامات کی۔
تفصیلات میں جانے سے قبل عوام الناس کو یہ جانکاری دینا ضروری ہے کہ آخر ملیریا کیا ہے؟ یہ کیسے پھیلتا ہے،اس کی علامات کیا ہیں اور اس سے بچاؤ کے لیے کیا اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں،اور اس کے پھیلاؤ کا آئیڈیل موسم اور پھر وقت کون سا ہے؟
میں اپنے قارئین کو بتاتا چلوں کہ ملیریا ایک متعدی اور شدید بخار کی علامات کی حامل بیماری ہے جو پلازموڈیم کی وجہ سے پھیلتی ہےاور یہ خاص مچھر اینو فیلس کے کاٹنے سے ہوتی ہے یہ مچھر صبح اور شام کے وقت انسان پر حملہ اور ہوتا ہے اور اس کے اگر موسم کی بات کی جائے تو اگست کے آخری ایام اور ستمبر میں اس بیماری کے بڑھنے اور پھیلنے کے خدشات زیادہ ہوتے ہیں زیادہ بارش کے علاقے جہاں 60 فی صد ہوا میں نمی ہو اور جن علاقوں کا درجہ حرارت 35 ڈگری سینٹی گریڈ ہو وہاں ملیریا کا پھیلاؤ زیادہ ہوتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ متاثرہ شخص کو کیسے پتہ چلتا ہے کہ وہ ملیریا کی گرفت میں آ چکا ہے اس بارے میں پہلی بات یہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ملیریا کے جراثیم رکھنے والے مچھر کے کاٹنے کے دس سے پندرہ دن تک اس کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، جس کے بعد انسان کو سخت بخار،کپکپانا یعنی شدید سردی لگنا، دست لگنا ،الٹیاں آنا وغیرہ شروع ہو جاتا ہے اگر بر وقت اس کا علاج نہ کیا جائے تو یہ بیماری خطرناک شکل اختیار کر سکتی ہے اور انسان یرقان،خون کی شدید کمی،مسلسل جھٹکے لگنا،گردوں کے فیل ہونے سمیت کئی ایسی بیماریوں کا شکار ہو سکتا ہے جو انسان کو ختم کر کے رکھ دیتی ہیں۔
اس بیماری کا زیادہ شکار حاملہ خواتین اور بچے ہوتے ہیں۔اس سے بچاؤ کے لیے چند امور ہمیشہ پیش نظر رکھنے چاہیے کہ خون ٹیسٹ کرنے کے بعد استعمال میں لانا چاہیے,جراثیم کش ادویات لگی مچھر دانیاں استعمال میں لانی چاہیے،مچھر نار سپرے یا لوشن کا استعمال کرنا چاہیے،ملیریا کے مریض سے مخصوص دوری اختیار کرنی چاہیے۔
انڈس ہسپتال اینڈ ہیلتھ نیٹ ورک اور محکمہ صحت مل کر ملیریا کی روک تھام کے لیے بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے 34 اضلاع میں ملیریا کنٹرول پروگرام بڑی کامیابی سے چل رہا ہے اس پروگرام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس پروگرام کے تحت مراکز قائم ہیں جہاں ملیریا کی مفت تشخیص اور اس کے علاج کی مکمل سہولیات موجود ہیں۔جن سے ہر کوئی مستفید ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں اگر ملیریا کے مریضوں کے اعدادوشمار پر نظر ڈالی جائے تو صرف صوبہ بلوچستان میں 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق 16.4فی صد آبادی ملیریا کی شکار ہے جبکہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں 31 فی صد ملیریا کے مریض ہیں جو 115985 تعداد بنتی ہے۔
انڈس ہسپتال اینڈ ہیلتھ کیئر اور حکومتی اکاوشوں کی بدولت ملیریا کے متعلق نہ صرف عوام میں آگاہی تقویت پکڑ رہی ہے بلکہ اس بیماری کی روک تھام میں بھی حوالہ افزا خبریں مل رہی ہیں۔ایسے میں صحافیوں ،سول سوسائٹی ،بلدیاتی نمائیندوں سمیت ہر طبقہ فکر کو اس قومی کمپین میں حصہ دار بنانے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔جن کے حوالہ افزا نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
صوبہ خیبر پختون خواہ کے ملیریا کنٹرول مراکز فعال انداز میں کام کر رہے ہیں وہاں ماہانہ بنیادوں پر تقاریب اور سیمینارز کا انعقاد کیا جا رہا ہے جن کا مقصد عوامی آگاہی کو زیادہ مستحکم بنانا ہے۔یہ سلسلہ چلتا رہے اور معاشرے کے سٹیک ہولڈر ایسے ہی سرگرمی کا مظاہرہ کریں، اور عوام الناس احتیاطی تدابیر پر عمل اور فوری علاج معالجے کا اہتمام کریں تو وہ دن دور نہیں جب خیبر پختون خواہ بھی ملیریا فری صوبہ کہلانے کا اعزاز حاصل کر لے گا۔