تحریر: منظور خان
اورکزئی میں مناسب انتظامات اور تربیت کے فقدان کی بدولت کوئلے کی کانیں موت کے کنوؤں میں تبدیل ہوگئیں، کانوں میں حادثات روز کا معمول بن گیا ہے۔
قبائلی ضلع اورکزئی قدرتی وسائل سے مالا مال مگر عوام بد حال ہے۔ ہنگو کوہاٹ، کرم اور خیبر ایجنسی کے دامن میں واقع قبائلی ضلع اورکزئی کئی حوالوں سے منفرد مقام اور اپنی پہچان رکھتا ہے۔
18 اقوام صدیوں سے اس پر کشش اور قدرتی مناظر سے آراستہ وادی میں مخصوص تہذیب اور اپنے کلچر کے مطابق رہ رہی ہیں مگر ان کو آج کے جدید دور میں بھی بنیادی سہولیات سے استفادہ کرنے کے مواقع محدود حیثیت میں مل رہے ہیں۔
اورکزئی تین تحصیلوں لوئر، سنٹرل اور اپر پر مشتمل ہے تاہم ان تین تحصیلوں میں عوام صحت، تعلیم ، مواصلات، آبنوشی سمیت دیگر سہولیات سے بکسر محروم ہیں البتہ اراکین اسمبلی اربوں روپے کے ترقیاتی کاموں کے دعویدار ہیں۔
محکمہ معدنیات اورکزئی کے مائن انسپکٹر انجنئیر عبد اللہ کے مطابق اورکزئی میں مجموعی طور پر 189 کوئلے کی کانیں ہیں جن میں سے 102 میں پروڈکشن جاری ہے۔
محکمہ معدنیات KPK کے اعداد و شمار کے مطابق اورکزئی میں کان کنی کے عمل کے دوران 47 دلخراش واقعات رونما ہوئے جن میں 47 کان کن بروقت رسیکو نہ ہونے پر ابدی نیند سو گئے جبکہ 15 مزدوروں کو زخمی حالت میں ریسکیو کیا گیا۔
کول مائینز میں حادثات کی بدولت جن خاندانوں کا جانی نقصان ہوتا ہے۔ اُن کی حالت زار کو کسی نے کبھی جانچنے کی کوشش نہیں کی۔
اگست 2022 کو ڈولی کے مقام پر واقع کان نمبر 10 میں ہونے والے حادثے میں کان کن وحید علی ولد غلام مہدی جان بحق ہو گیا۔ جس کا تعلق اورکزئی لوئیر سے تھا اس کا خاندان انتہائی خستہ حالی کی زندگی گزار رہا ہے۔
کان کن وحید علی کے دو کم سن بیٹے اور ایک بیٹی ہے جس کی کفالت کی تمام ذمہ داری بیوہ کے کندھوں پر ہے۔
وحید علی کی بیوہ سلائی کڑھائی کرتی ہے اور بچوں کی تعلیم وترتیب سمیت دیگر ضروریات پورا کرنے کے جتن میں مصروف رہتی ہے جبکہ حکومت کی طرف سے کسی قسم کی امداد یا معاوضہ اِس خاندان کو نہیں ملا۔
ایسے ہی بہت سے خاندان ہیں جن کے سربراہان کانوں میں حادثات کی نزر ہوئے اور حکومتی عدم توجہ کی بدولت کسمپرسی کی اور گمنامی کی حد درجہ مفلسی کی حامل زندگی گزار رہے ہیں۔
رپورٹ کے دوران یہ حقیقت چشم کشا تھی کہ کان کنوں میں کام کرنے والے کان کن بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور جن علاقوں میں یہ کانیں موجود ہیں وہاں تک ریسکیو ٹیموں کی بروقت پہنچ بھی مشکل عمل ہے۔
سرا خونہ شیخان کے علاقوں میں 47/47 کانیں جبکہ دانہ خولہ میں 60 اور گھوٹک میں چار کانیں موجود ہیں۔
ان کانوں میں مجموعی طور پر 600 سے زائد غریب کان کن کام کر رہے ہیں جن کا تعلق سوات ،اورکزئی، شانگلہ اور دیر کے اضلاع سے ہے۔
محکمہ معدنیات اورکزئی دعویدار ہے کہ وہ کان کنوں کی ٹرینگ کا بندوست کرتا ہے تاہم کان کنوں کی اکثریت نے اس دعوے کی نفی کی ہے، کان کنوں کو ماہانہ 25000 سے 30000 تک تنخواہ دی جاتی ہے۔ تاہم ان کے لیے رہائشی علاج معالجے کی سہولیات انتہائی پست نوعیت کی ہیں۔
اورکزئی کی انتظامیہ بھی اس انداز میں اس شعبے کی ترقی کے لیے دلچسپی نہیں لے رہی جو اُس کی ذمہ داری ہے۔
دوسری طرف کان کنوں سے ان کے مسائل کے متعلق رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ہچکچاہٹ کے انداز میں مایوسی کا اظہار کیا۔
دوسری طرف کول مائیر کے سربراہ مالکان نور اکبر اورکزئی،سید ساجد حسن و دیگر سے رابطہ کرنے پر اُن کا موقف تھا کہ وہ اپنے وسائل میں رہتے ہوئے ملازمین کی فلاح و بہبود، اُن کی تربیت اور انہیں سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہیں تاہم حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اِس شعبہ سے وابسطہ افراد کی سر پرستی کرے اور کان کنی کو انڈسٹری ڈیکلیئر کر کے مختلف قسم کی مراعات فراہم کرے۔
اورکزئی میں سیر و سیاحت کے وسیع تر مواقع موجود ہیں پرکشش وادیوں پر مشتمل یہ ضلع کسی طرح ملک کے خوبصورت اور سیاحت میں مشہور علاقوں سے کم نہیں، یہاں کے عوام بھی پر امن اور مہمان نواز ہیں مگر روزگار نہ ہونے سے پریشان ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اورکزئی پر حکومت توجہ دے اورہوٹلنگ اور سیاحتی مقام بنانے کیلئے عملی اقدامات اُٹھائے، یہاں انڈسٹریل زون بھی قائم کیا جا سکتا ہے جس سے غربت میں کمی اور عوام کو روز گار ملے گا، یہ علاقہ ہر لحاظ سے مردم شناس ہے۔
جہاں تک کان کنی کا تعلق ہے حکومت اگر اس شعبے پر توجہ دے تو کان کنی کی بدولت علاقہ ترقی بھی کرے گا اور غربت میں بھی کمی واقع ہوگی اور کان کنی کے حادثات میں بھی کمی آئینگی۔