صفحہ اول / آرکائیو / پاکستان اوربھارت میں مقیم محبت کے پجاریوں اور رشتے نبھانے والے کے درمیان حائل سرحدات

پاکستان اوربھارت میں مقیم محبت کے پجاریوں اور رشتے نبھانے والے کے درمیان حائل سرحدات

رپورٹرز: فضل الرحمان(پاکستان)
مرزا غنی بیگ(انڈیا)
ندیم خان(پاکستان)

(آن لائن پاکستان ڈیجیٹل)

محبت کوئی سرحد نہیں جانتی، لیکن ہندوستان اور پاکستان میں رہنے والے شہریوں کے لیے سرحد پار محبت،شادی، یا رشتے کی راہ میں بے شمار رکاوٹیں موجود ہیں حالیہ دنوں فیصل آباد کی ایک لڑکی کی اپنے مبینہ منگیتر سے ملنے انڈیا جانے کی کوشش میں اسکی گرفتاری نے سرحد پار محبت، رشتہ داری تعلق داری کے حوالے سے درپیش متعدد مشکلات کو نہ صرف آشکارا کیا بلکہ بحث کے نئے دریچے بھی کھول دیئے ہیں،
دونوں ممالک کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد کے قریبی عزیز سرحد پار کے دونوں ممالک میں مقیم ہیں،

انار کلی کی حالت زار: سرحد پار مشکلات اور علیحدگی کی کہانی

ہندوستان کے شہر متھرا میں پیدا ہونے والی 74 سالہ خاتون انار کلی خود کوبیوروکریٹک رکاوٹوں اور ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدہ سفارتی تعلقات کے ایک جال میں پھنسا ہوا پاتی ہے اس کی کہانی محبت، نقصان، اور سرحدوں کے پار اپنے خاندان کے ساتھ دوبارہ ملنے کی جدوجہد کی کہانیوں میں سے ایک ہے،

انڈیا میں انار کلی نے اپنے سابقہ خاوند کی وفات کے بعد 1978 میں سرحد پار کرکے پاکستان کے شہر لاہور میں مقیم اپنے دور کے رشتہ دار نور محمد سے شادی کی اور بلال گنج کے علاقہ میں رہائش اختیار کرلی،

گذشتہ شوہر میں سے اسکا بیٹا آصف بھی لاہور میں اسکے ساتھ مقیم ہے تاہم چند سال قبل نور محمد کے انتال کے بعد انار کلی اور اس کے خاندان کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، اسکا بیٹا آصف نابینا اور کام کرنے سے قاصر ہے جبکہ اسکی بیوی بھی ٹانگوں کی بیماری کے باعث معذور ہے اپنی اور خاندان کی کفالت اس کے کندھوں پر بھاری پڑ گئی۔

سڑکوں پر ماسک اور پنسل بیچنا اسکے اخراجات پورے نہیں کرسکتے ، انار کلی اب دوبارہ اپنے والدین کے ملک اپنے بہن بھائیوں کے پاس انڈیا جانے کی خواہشمند ہے مگر 1985 میں جب اس نے انڈین شہریت ترک کرکے پاکستانی شہریت حاصل کی تواب اسے دوبارہ انڈیا کی شہریت ملنا محال ہے، دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات اور قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے اسے انڈیا کاویزا نہیں مل پاریا،

محمد آصف اور ان کی اہلیہ بھی انارکلی کے لیے بھارت کا ویزا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگروہ خود پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں۔

انار کلی کا اپنے پیاروں سے دوبارہ ملنے کا خواب ادھورا رہ گیا،انار کلی کا شناختی کارڈ بلاک ہے اور اسکے پاسپورٹ کی معیاد بھی ختم ہے۔

ہندوستان میں انارکلی کو فیملی کے ساتھ ملانے کی کوششیں جاری ہیں۔

دوسری جانب انڈیا میں ہماری ٹیم کے صحافی دوست نیمتھرا، اتر پردیش میں انار کلی کے بھتیجے محمد عمران سے رابطہ کیا جو اپنے والد کو اپنی طویل عرصے سے کھوئی ہوئی بہن کے ساتھ ملانے کی کوششوں کی قیادت کر رہے ہیں۔

عمران اور اس کا خاندان اس وقت تاریخی چوک بازار کے قریب شیتل گھاٹی محلے میں مقیم ہیں۔ہمارے نمائندے نے علاقے میں پہنچ کر معلوم کیا تو اسے علم ہوا کہ مقامی باشندے انار کلی کے معاملہ سے بخوبی واقف ہیں۔ا ایک ہندو دکاندارکو جب علم ہوا کہ صحافی ہوں تو اس نے انار کلی کے بھائی پہلوان خوش نصیب خان کے گھر کاراستہ دکھلایا، انار کلی کے بھائی 58 سالہ پہلوان خوش نصیب خان نے اپنی یادیں شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ اسے آج بھی وہ دن یاد ہے جس دن انارکلی متھرا جنکشن ریلوے اسٹیشن سے پاکستان کے لیے روانہ ہوئی۔ وہ جس ٹرین میں سوار ہوئی تھی وہ موجودہ الیکٹرک ٹرینوں کے برعکس بھاپ کا انجن تھا۔

پہلوان خوش نصیب نے انکشاف کیا کہ انہوں نے انار کلی ویزا حاصل کرنے کی دو ناکام کوششیں کیںمگرپاکستان سے بلاک شدہ قومی شناختی کارڈ کے مسائل کی وجہ سے انارکلی کے لیے ویزہ نہ مل سکا، انہوں نے گلو گیر لہجہ میں کہا کہ چند روز قبل ہمارا بڑا بھائی انتقال کرگیا جو انار کلی سے ملنے کی تڑپ لیئے اس دنیا سے چلا گیا، ہمارا سارا خاندان ایک بار اپنی بہن سے ملنے کو بے تاب ہے تاہم سوشل میڈیا اور رابطے کے دیگر پلیٹ فارمز کے زریعے وہ اپنی بہن سے رابطہ میں ہیں، انار کلی کے ویزا مسترد ہونے کے باوجود اسکے بھتیجے عمران نے ذاتی طور پر ضلع کے مجسٹریٹ کو نوری ویزا کی درخواست جمع کرائی مگر درخواست مسترد ہوگئی،

معروف سماجی کارکن، سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل اورشہریت کے معاملات میں ماہر شہزاد علوی ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ اگر انارکلی نے ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی تو عدالت انسانی ہمدردی یا بنیادی انسانی حقوق کی بنیاد پر فیصلہ دینے کا اختیار، رکھتی ہے، پاکستان کے قانون شہریت کے تحت اگر کسی کی شہریت ختم کردی جائے یا شناختی کارڈ بلاک ہو تو متعلقہ محکمہ کے حکام سے رابطہ کریں اور داد رسی نہ ہونے پر ہائی کورٹ سے رابطہ کیا جاسکتا ہے،

بھارت اور پاکستان کے درمیان تاریخی اور سیاسی کشیدگی کے باوجود سرحد پارکرناٹک کے شہر بھٹکل میں صدیوں سے شادیاں چلی آرہی ہیں، بھٹکل کے باشندے پاکستان میں کراچی اور لاہور کی دلہنوں سے شادیاں کرتے ہیں اور یہاں بڑی تعداد میں پاکستانی دلہنیں موجود ہیں تاہم انہیں بھی متعددچیلنجز، بشمول شہریت حاصل کرنے میں مشکلات، محدود سفر، اور بیوروکریٹک ٹائپ رکاوٹوں کا سامنا ہے،

صرف انار کلی ہی نہیں رافعہ عبیدہ اور کریمہ اور ایسی متعدد دیگر کئی خواتین موجود ہیں جو سرحد پار محبت میں گرفتار ہوئیں مگر اب مسائل سے دوچار ہیں، بعض زرائع ایسی خواتین کی تعداد ستر کے قریب بتاتے ہیںاس تحریر میں ہم کچھ خواتین کی کہانیاں بھی قارئین کی نذر کرریے ہیں جن سے مجموعی صورت حال کو سمجھنے میں بڑی ھد تک مدد ملتی ہے،

چند ماہ قبل پاکستان کے فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی خدیجہ نور نے ایک جرات مندانہ سفر کا آغاز کیا جس نے اسے اس سے آبائی وطن چھین لیاخدیجہ کو جنوبی ہندوستان کی ریاست تلنگانہ کے رہائشی سعید احمد سے محبت ہو گئی تھی۔

سوشل میڈیا کے ذریعے. اس سے ملنے کا عزم کرتے ہوئے، اس نے سفر کرنے کا فیصلہ کیا نیپال کے راستے تلنگانہ پہنچنے کی امید کے ساتھ وہ نیپال تو پہنچ گئی مگر نیپال سے انڈیا کی سرحد پار کرتے ہوئے اسے گرفتار کرلیا گیا،وہ سنٹرل آرمڈ پولیس فورس کے اہلکاروں جنہیں ساشسٹرا سیما بل (SSB) کے ہاتھوں گرفتار ہیں انہیں پہلے جاسوس کی نظر سے دیکھا گیا تاہم تفتیش کے بعدحکام کی جانب سے جاسوسی میں ملوث ہونے یا قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہونے کو مسترد کردیا گیا انکے خلاف 9 اگست 2022 کو ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔

بہار کے سرسند پولیس اسٹیشن، جرم نمبر 401/2022 انکے خلاف درج ہے تاہم نومبر 2022 میں انہیں عبوری ضمانت دی گئی تاہم حتمی برات کے لیئے ان کا مقدمہ عدالت میں ہے اور حکومت پاکستان کی جانب سے اس کے اہل خانہ کو ہرممکن قانونی و اخلاقی مدد فراہم کی جا رہی ہے، سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں خدیجہ کمزور اور پیلی دکھائی دیتی ہیں۔

خدیجہ کے مطابق، اس کی ملاقات سعید احمد سے آن لائن ہوئی، اور ان کا ورچوئل کنکشن کھل گیا۔وقت کے ساتھ محبتبڑھتی گئی تاہم، اس کے والدین نے ان کے رشتے سے انکار کیا، جس کی وجہ سے وہ اسے چھوڑ کر بھاگ گئی۔

خدیجہ نور کے قریبی رشتہ دار نے ہمیں بتایا کہ نئی دہلی میں پاکستانی سفارت خانہ انکی رہائی کے لیئے انکے خاندان اور متعلقہ محکمہ جات کے ساتھ رابطہ میں ہے،تیلنگانہ ہائی کورٹ کے وکیل مہیش مہندلا کہتے ہیں کہ خدیجہ نور پر رحم کیا جائے وہ ایک غیر ہندوستانی باشندہ ہیں جنہیں ہندوستان میں رہنے کا قانونی حق حاصل نہیں ہے، اور اس وجہ سے،رحم کیا جائے اور پاکستان جلاوطنی پر غور کیا جائے،

رافعہ عبیدہ کی شہریت کے لیے جدوجہد

اس مضمون میں رافعہ عبیدہ اور کریمہ جیسی شخصیات کی کہانیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ بھٹکل میں مقیم رافعہ عبیدہ کراچی سے بیاہ ہوکر تو یہاں آگئی ہین تاہم یہاں انہیں متعدد دیگر مشکلات کا سامناکرناپڑتا ہے،

انہوں نے تین مرتبہ انڈیا کی شہریت حاصل کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہیں، انہیں اپنے شوہر کے وطن کرناٹک یا ہندوستان کے اندر سفر کرنے کے لیے پولیس کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے، حتی کی علاج معالجہ کے لیئے بھی حکام کو بتانا پڑتا ہے،

رافعہ عبیدہ بتاتی ہیں کہ کسی بھی قسم کے سفر سے پندرہ دن قبل ، اسے مقامی پولیس سٹیشن کو درخواست جمع کروانے کی ضرورت ہوتی ہے، جہاں سے اگر اسے اجازت مل جاتی ہے تو اسے 150 کلومیٹرکا سفر توثیق کے لیے ایس پی آفس تک کا طے کرنا پڑتا ہے، اور پھر اضافی 300 کلومیٹرمنگلور کے ایک ہسپتال تک پہنچنے کے لیے طے کرنا پڑتے ہیں، رافعہ کے مطابق، جب وہ شہریت کے لیے اپلائی کرتی ہے، تو ضلعی حکام کی جانب سے مسلسل اضافی دستاویزات کا مطالبہ کیا جاتا ہے، وہ 2001 میں اپنی شادی کے بعد سے بھٹکل میں رہ رہی ہے۔

اور مقامی زبان بولتی ہیں رافعہ عبیدہ کے شوہر ابوبکر نے مزید کہا کہ ضلعی عہدیدار خصوصی طور شادی کا سرٹیفکیٹ جو جنوبی ہندوستان کی ریاست کرناٹک میں رجسٹرار آف میرجز کے ذریعہ جاری کیا گیا ہو وہ طلب کرتے ہیں جبکہ ان کے پاس کرناٹک اسٹیٹ وقف بورڈ کے ذریعہ جاری کردہ شادی کا سر ٹیفکیٹ ہے، لیکن اس کو دستاویزات کے طور پر قبول کیا جا رہا ہے۔

ابوبکر نے دعوی کیا کہ ضلعی عہدیدار نے یہ اطلاع دی۔کرناٹک وقف بورڈ کے ذریعہ جاری کردہ شادی کا سرٹیفکیٹ صرف کسی دوسری تصویر کے ساتھ قابل قبول ہے ۔ رافعہ کے شوہر نے اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کیا کہ اس کی بیوی کو منفرد شناختی آدھار کارڈ جاری نہیں کیا گیا ہے۔(آدھار ایک 12 ہندسوں کا انفرادی شناختی نمبر ہے جو شناخت کے ثبوت کے طور پر کام کرتا ہے اورہندوستان کے رہائشیوں کے لیے پتے کا ثبوت ہوتا ہے)اسی کی مشکل صورت حال کا سامناکریمہ کررہی ہیں( جس کا نام پرائیویسی کے لیے تبدیل کیا گیا ہے) کریمہ کی کہانیبھٹکل میں رہنے والی پاکستانی بیویوں کو درپیش چیلنجز۔ کی پیچیدگیوں کو اجاگر کرتی ہے۔

پولیس اور انٹیلی جینس کے مداخلتی دوروں سے نمٹنے کے دوران اپنے روایتی پردہ دار لباس کو برقرار رکھنا ان کے لیئے چیلنج ہے جس سے وہ نمٹ رہی ہیں، پاکستان میں پیدا ہونے والی اور پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والی کریمہ نے اپنے بارے میں بتایا کہ گرہ میں پتھری کے مرض کے باوجود وہ شہریت کے حصول کے لیئے کثرت سے عدالت کے چکر لگاتی ہیں، اسکے شوہرسعودی عرب دمام میں کام کرتے ہیں وہ اپنے تین بچوں اور اپنی پوری دنیا سمجھتا ہے۔

کریمہ نے ہمیں بتایا کہ جب بھی ملک میں کہیں بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔کرناٹک پولس کے اہلکار نے اس کے گھر جا کر چیک کرتے ہیں کہ آیا وہ گھر میں موجود ہے یا نہیں، انہوں نے بتایا کہ بھٹکل میں دہائیوں سے ہماری کئی نسلیں پرون ثر چکی ہیں اگرچہ تقسیم ہند سے قبل کشمیر اور ملحقہ پاکستانی علاقوں میں ہمارے کاروباری روابط تھے اسی وجہ سے آج بھی ہمیں مشکوک دیکھا جاتا ہے،

کرناٹک پولیس کے ایک زمہ دار کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے بھٹکل کے باسیوں کو دہشت گردی کے واقعات میں مشکوک بنانے میں تیزی آتی جارہی ہے بھٹکل میں مقیم کراچی کی دلہنوں کے لیئے وہاں کی شہریت کا حصول بھی مشکل بنتا جا رہا ہے،

جاوید، جن کی اہلیہ کا تعلق بھی پاکستان سے ہیبھٹکل یا انڈیا کے اندر سفر کرنے کی مشکلات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ویزا پابندیوں کی وجہ سے ہندوستان کے کسی حصہ میں سفر کے لیئے پولیس سے اجازت لینے کی ضرورت پڑتی ہے، ان کی کوششوں کے باوجود،ان بیوی کی شہریت کی درخواستیں وزارت داخلہ کے پاس زیر التوا ہیں۔بنگلورو اترا کناڈا ضلع کے ایک سینئر پولیس افسر کے مطابق،تقریبا 70 ایسی درخواستیں زیر التوا ہیں، جن میں 16 ایسی پاکستانی خواتین کی ہیں جو بھٹکل میں مقیم ہیں۔

شازما منصور کی کامیابی کی کہانی

مشکلات اور ناکامیوں کی اس جدوجہد کے درمیان امید کی کرن شازما منصور کی کہانی نظر آتی ہے۔ شازما منصور کراچی یو نیورسٹی ست صحافت کی سند کی حامل ہیں انکے والد بنگلور سے ہجرت کرکے پاکستان منتقل ہوگئے تاہم ان کی خواہش تھی کہ بنگلور سے بھی ان کا رشتہ برقرار رہے اور اسی محبت میں انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی بنگلور میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں کی، شازما نے تین سال قبل بنگلور میں ہندوستانی شہریت حاصل کی تھی۔ ایک انٹرویو میںانہوں نے بتایا کہ انکے شوہر نے انڈیا کی شہریت کے حصول کی جدوجہد کیں انکا بھرپور ساتھ دیا،شازما اپنے آبائی شہر کراچی آنے کے چیلنجوں کو تسلیم کرتی ہیں، انہوں نے بتایا کہ شروع کے چند سالوں میں وہ پاکستانی پاسپورٹ پر انڈیا میں رہیں وہیں انہوں نے نوری ویزا حاصل کیا، (نوری ویزہ سے مراد، نو آبجیکشن ریٹرن ٹو انڈیا) پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ صورت حال کے باوجود انہوں نے دونوں ممالک کی حکومتوں سے دشواریاں ختم کرنے کے لیئے اقدامات اٹھانے کی اپیل کی،

پاکستان اور انڈیا میں شہریت سے متعلق قانون
پاکستانی وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق پاسپورٹ کے اجرا کا عمل پاکستانی شہریت کا حصول غیر ملکیوں اور شہریوں دونوں کے لیے چیلنج ہے۔1951 کا شہریت ایکٹ اور اس کے ساتھ 1952 کے قواعدکے مطابق پاکستانی شہریت ترک کرنے والوں کے لیئے دوبارہ شہریت کا حصول ناممکن ہے تاہم جن ممالک کے ساتھ پاکستان کا دوہری شہریت کا معاہدہ ہے وہاں منتقل ہونے والے پاکستانی کسی بھی وہ اپنی پاکستانی شہریت قوائد و ضوابط کی تکمیل کے بعد حاصل کرسکتے ہیں۔

انڈیا کی تلنگانہ ہائی کورٹ کے وکیل مہیش ممندلا کہتے ہیں کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد سے متعلق قوانین میں انڈین شہریت ممکن نہیں، انہوں نے کہا کہ انڈین شہریت ایکٹ سیکشن 5(1)(c) کے تحت ایک ہندوستانی شہری سے شادی شدہ شخص ہندوستانی شہریت کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔سیکشن 5 کی مخصوص شق (1)(c)، جو ‘رجسٹریشن کے ذریعے شہریت سے متعلق ہے،

ہندوستانی قانون کے مطابق ہندوستانی شہری کا پاکستانی شہری سے شادی کرنا غیر قانونی نہیں ہے۔ اگر کوئی فرد کسی سے شادی شدہ ہے تو اسے ہندوستانی شہری کے طور پر رجسٹر کیا جا سکتا ہے، وکیل مہیش ممندلا نے ہندوستانی شہریت حاصل کرنے میں چیلنجز کا سامنا کرنے والے افراد اور درخواست دہندگان کو مشورہ دیا ہے کہ ۔معلومات کے حق 2005 آر ٹی آئی ایکٹ کو بطور آلہ استعمال کریں۔ آر ٹی آئی درخواستیں داخل کرکے، درخواست دہندگاناپنے ویزا اور یو آئی ڈی(آدھار) میں تاخیر یا مسترد ہونے کی وجوہات کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں۔اور اسکے بعد وہ انڈیا کی ہائی کورٹ میں کیس بھی دائر کرسکتے ہیں،

تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک کی حکومتیں اس حوالے سے قانون سازی کریں اور رشتے قائم کرنے، محبتیں پروآن چڑھانے والوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے